میر باقری: وہ پیراہن جس پر تیر اور نیزہ لگا، اور آخر میں امام کے جسم سے جدا کر دیا گیا، یہ شیعوں کے لیے سب سے بڑا نشان ہے۔

مجلسِ خبرگان کے ایک رکن نے عاشورا کے تاریخی اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سید الشہداء علیہ السلام نے اپنے قیام کے ذریعے دنیا میں ایک نورانی غم برپا کیا، جو شیطان کے منصوبوں کو درہم برہم کر گیا۔ درحقیقت، شیطان کے کھیل اور لہو و لعب کی بساط صرف عاشورا کے ذریعے لپیٹی جا سکتی تھی۔

سیکریٹریٹ کی رپورٹ کے مطابق چوتھی بین الاقوامی اجلاسِ نخبگانِ منابرِ شیعہ، یہ اجلاس کربلا معلی میں عالمِ اسلام کے فعال شخصیات کی موجودگی میں منعقد ہو رہا ہے۔
اس پروگرام میں، مجلسِ خبرگانِ رہبری کے رکن اور مذہبی مقرر حجت‌الاسلام سید محمدمهدی میرباقری نے اپنے خطاب میں عاشورا کے تاریخی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: سیدالشہداء علیہ السلام نے اپنے قیام کے ذریعے دنیا میں ایک نورانی غم برپا کیا، جو شیطان کی بساط کو درہم برہم کر گیا۔ درحقیقت، شیطان کے لہو و لعب کی بساط فقط عاشورا کے ذریعے لپیٹی جا سکتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا: امام کے اس اقدام نے حق و باطل کے درمیان واضح حد مقرر کر دی، در حقیقت عاشورا وہ منظر ہے جہاں حق اور باطل مکمل طور پر الگ ہو جاتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ حماسی اور مظلومانہ منظر ہے، اور بلا شبہ فتح کے ساتھ تھا۔
میرباقری نے بیان کیا کہ یہ وہ عشاق تھے جن کا عاشقی کا قرار خود خدا نے طے کیا تھا۔ جب امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کربلا پہنچا، تو سیدالشہداء علیہ السلام نے خاک کو سونگھا اور فرمایا: "یہی ہماری قرار گاہ ہے، اور ہم یہاں سے خدا کی طرف جائیں گے۔”
اس مذہبی مقرر نے عاشورا کے قطعی فاتح کو سیدالشہداء علیہ السلام قرار دیا اور کہا: "فاتح سیدالشہداء علیہ السلام ہیں، اور ‘انا فتحنا’ کی سب سے بڑی مثال واقعہ عاشورا ہے، تمام فتوحات وہیں سے شروع ہوئیں، اور جو اس سلسلے کو مکمل کرے گا وہ امام زمانہ عج‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف ہیں، کیونکہ ان کا لشکر عاشورا میں ہی تیار کیا گیا ہے۔”
میرباقری نے کہا کہ اگر کسی معاشرے میں سیدالشہداء علیہ السلام پر گریہ نہ ہو، تو اس سے امام حسین علیہ السلام کا سپاہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید کہا: "امام زمانہ عج‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف کے رکاب میں خون کا انتقام لینا ان لوگوں کا رزق ہے جنہوں نے عاشورا کو درک کیا، آقا کا لشکر یہاں سے تیار ہوتا ہے، اور ہم جتنا عاشورا کو زندہ رکھنے کے لیے کوشش کریں، اتنا ہی امام زمانہ عج‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف کی مدد کریں گے۔

انہوں نے سیدالشہداء علیہ السلام کے پیراہن کو شیعہ کے اہم ترین نشانات میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا: یہ ایک اہم موضوع ہے، جو تحقیق اور علمی مطالعے کی ضرورت رکھتا ہے۔ عاشورا میں پیش آنے والے واقعات کسی مزید تحقیق کے محتاج نہیں، مگر اس پیراہن کی تاریخ اور پس منظر علمی تجزیے کی متقاضی ہے۔
انہوں نے حضرت علی اصغر علیہ السلام کی یاد منانے کے حوالے سے کہا: "روزِ شیرخوارہ ایک عظیم علامت ہے، جو عاشورا کی وسعت کو ظاہر کرتی ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں سیدالشہداء علیہ السلام نے فتح حاصل کی۔”
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: "جو علامتیں ہم پیش کرتے ہیں، وہ اس فتح کو واضح کرنے والی ہونی چاہئیں، اور سیدالشہداء علیہ السلام کا پیراہن اس صلاحیت کا حامل ہونا چاہیے۔ البتہ، کیا یہ پیراہن وہی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قمیص تھا؟ یہ ایک تحقیقی موضوع ہے۔ اس سلسلے میں بین العلومی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے، جو ایک عمومی مکالمے میں تبدیل ہو اور بالآخر بشری مطالعے کا حصہ بنے۔ یہ سب ایک عظیم کام کے مقدمات ہیں، اور اس کے لیے ایک دنیا تحقیق درکار ہے۔”
میرباقری نے آخر میں کہا: "یہ کام ایک موثر تاریخی علامت کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کر سکتا ہے، کیونکہ وہ پیراہن جس پر تیر اور نیزہ لگا، اور آخر میں امام کے جسم سے جدا کر دیا گیا، یہ ہم شیعوں کے لیے سب سے بڑا نشان ہے۔پیراهنی که تیر و نیزه خورده و آخر هم از تن امام کنده شده این بزرگترین نماد برای ما شیعیان است. بلاشبہ، ان کے پاس بھی مستند دلائل موجود ہیں، جو سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور تحقیقی کام کا تقاضا کرتے ہیں، کیونکہ یہ عاشورا کے اسرار ہیں جن کے آشکار ہونے کے مخصوص اصول اور ضوابط ہیں۔ لیکن امید ہے کہ حضرت کی اجازت اسی میں ہو، اور یہ واقعہ حقیقت میں رونما ہو، کیونکہ بنیادی طور پر یہ کام ایک مقدس اور محترم امر ہے، اور امید ہے کہ یہ علمی تحقیق کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچے۔